
Supreme Court Of Pakistan Verdict on Khula and Dowry: A Precedent
The Beginning of the Story: A Complicated Marital Relationship
This story revolves around Syed Aamir Raza and Mrs. Ruhi Mumtaz, who were bound in marriage but developed differences over time. After their wedding, Ruhi realized that Aamir and his family had a very strict and oppressive attitude. According to Ruhi, Aamir subjected her to physical and mental torture on many occasions. She felt it was no longer possible to maintain this relationship. Therefore, Ruhi filed a case in family court seeking dissolution of marriage based on Khula (a form of divorce initiated by the wife).
کہانی کا آغاز: ایک پیچیدہ ازدواجی تعلق
یہ کہانی سید عامر رضا اور مسز روحی ممتاز کی ہے، جو شادی کے بندھن میں بندھے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ شادی کے بعد، روحی کو اندازہ ہوا کہ عامر اور ان کے اہل خانہ کا رویہ نہایت سخت اور ظالمانہ تھا۔ روحی کے مطابق، کئی مواقع پر عامر نے جسمانی اور ذہنی طور پر انہیں اذیت پہنچائی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اب مزید اس رشتے کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ لہذا، روحی نے فیملی کورٹ میں خلع کی بنیاد پر شادی کے تحلیل کا مقدمہ دائر کیا۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2024SCMR1394 | Dissolution Of Marriage, Khula خلع، تنسیخ نکاح | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | امین الدین خان اور سید حسن اظہر رضوی | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
مسز روحی ممتاز اور دیگر — جواب دہندگان | بنام | سید عامر رضا — درخواست گزار | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | سید حسن اظہر رضوی |

Divorce Petition in Court and Arguments of Both Lawyers
In family court, Ruhi’s lawyer argued that the treatment of his client was not only cruel but also against the principles of Islamic Sharia. He informed the court that according to the marriage contract, Aamir had promised Ruhi a dowry of 50 tolas of gold and a house. Ruhi’s lawyer further stated that Aamir and his family repeatedly pressured Ruhi to bear the household expenses herself, while Aamir neither provided financial support nor respect. On the other hand, Aamir’s lawyer argued that the allegations made by Ruhi were exaggerated and informed the court that minor quarrels are common in marital life. He maintained that Ruhi’s demand for Khula was unnecessary and that the husband should be given the right to try to maintain the marital life.
عدالت میں طلاق کی درخواست اور دونوں وکلاء کے دلائل
فیملی کورٹ میں روحی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کی موکلہ کے ساتھ ہونے والا رویہ نہ صرف ظالمانہ تھا بلکہ اسلامی شریعت کے اصولوں کے خلاف بھی تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ شادی کے نکاح نامے کے مطابق، عامر نے روحی کو 50 تولے سونے اور ایک مکان کا مہر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ روحی کے وکیل نے مزید کہا کہ عامر اور ان کے خاندان نے بارہا روحی پر دباؤ ڈالا کہ وہ گھر کے اخراجات خود برداشت کریں، جبکہ عامر نہ تو مالی مدد فراہم کرتے تھے اور نہ ہی احترام۔
دوسری طرف، عامر کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ روحی کی طرف سے دیے گئے الزامات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور عدالت کو بتایا کہ ازدواجی زندگی میں چھوٹے موٹے جھگڑے عام بات ہیں۔ انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ روحی کی طرف سے خلع کا مطالبہ غیر ضروری ہے اور شوہر کو اس کا حق دینا چاہیے کہ وہ ازدواجی زندگی برقرار رکھنے کی کوشش کرے۔
Initial Decision of the Family Court
The court heard the arguments of both parties and reviewed the evidence. The court ruled in favor of dissolution of marriage based on Khula, stating that Ruhi would have to return 50% of the deferred dowry and 25% of the immediate dowry. This decision was in accordance with Section 10(5), which requires the wife to forgo some part of the deferred dowry in case of Khula.
Case in the Appellate Court
Aamir appealed this decision to the Appellate Court. The Appellate Court upheld the initial decision of Khula but stated that Ruhi would have to pay 50% of the house or its market value. This decision provided some relief to Aamir, but the situation became more complicated for Ruhi.
فیملی کورٹ کا ابتدائی فیصلہ
عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سنے اور شواہد کا جائزہ لیا۔ عدالت نے خلع کی بنیاد پر طلاق کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ روحی کو مؤخر مہر کا پچاس فیصد اور فوری مہر کا پچیس فیصد واپس کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ دفعہ 10(5) کے مطابق تھا جس کے تحت خلع کی صورت میں عورت کو مؤخر مہر کا کچھ حصہ چھوڑنا ہوتا ہے۔
اپیلٹ کورٹ میں مقدمہ
عامر نے اس فیصلے کے خلاف اپیلٹ کورٹ سے رجوع کیا۔ اپیلٹ کورٹ نے ابتدائی فیصلے کو رد کرتے ہوئے خلع کے فیصلے کو برقرار رکھا اور یہ کہا کہ روحی کو مکان کا پچاس فیصد حصہ یا اس کی مارکیٹ ویلیو ادا کرنی ہوگی۔ اس فیصلے سے عامر کو کچھ ریلیف ملا، لیکن روحی کے لیے یہ صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی۔
Final Decision of the Supreme Court
Ruhi filed an appeal against this decision in the Supreme Court. The Supreme Court carefully reviewed the case and ruled under Section 10(5). The Supreme Court found that in the case of Khula, the wife is required to return 50% of the deferred dowry. The court further stated that the house mentioned in the marriage contract is part of the deferred dowry, and Ruhi is entitled to only 50% of that house or its market value.
سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ
روحی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ سپریم کورٹ نے کیس کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور دفعہ 10(5) کے تحت مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے پایا کہ خلع کے معاملے میں مؤخر مہر کا پچاس فیصد حصہ واپس کرنا لازمی ہے۔ عدالت نے مزید یہ کہا کہ نکاح نامے میں مذکور مکان، مؤخر مہر ہے اور روحی کو صرف اس مکان کے پچاس فیصد حصے کا حق ہے یا اس کی مارکیٹ ویلیو کا۔
Importance of the Decision and Legal Points
This decision by the Supreme Court is an important precedent that sheds light on the issues of Khula and the return of dowry. In this case, the court highlighted the importance of Section 10(5), which requires the wife to forgo 50% of the deferred dowry in case of Khula. This decision makes it clear that the judicial system can resolve matters while considering the principles of Islamic laws.
Lesson for Citizens
This story teaches us that every citizen should not hesitate to seek legal redress for their rights. Although there are disputes in marital life, there is no need to endure oppression and unfair treatment. According to Islamic teachings, it is incumbent upon the husband to respect, love, and support his wife.
فیصلے کی اہمیت اور قانونی نکات
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک اہم نظیر ہے جو خلع اور مہر کی واپسی کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کیس میں عدالت نے دفعہ 10(5) کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس کے مطابق خلع کی صورت میں عورت کو مؤخر مہر کا پچاس فیصد حصہ چھوڑنا ہوتا ہے۔ اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عدالتی نظام میں اسلامی قوانین کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
شہریوں کے لیے سبق
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگرچہ ازدواجی زندگی میں جھگڑے ہوتے ہیں، لیکن ظلم اور غیر منصفانہ سلوک کو برداشت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو احترام دے، محبت کرے اور اس کی کفالت کرے۔
Conclusion
This decision conveys the message that if you have to fight a legal battle for your rights, do not hesitate. Ruhi’s struggle and the Supreme Court’s decision are proof that the judiciary exists to protect the rights of citizens. This decision serves as an encouragement for those who want to stand up for their rights in any oppressive and unjust situation.
اختتامیہ
اس فیصلے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کو اپنے حقوق کے لیے قانونی جدوجہد کرنی پڑے تو اس میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ روحی کی یہ جدوجہد اور سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عدلیہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجود ہے۔ یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے ایک ترغیب ہے جو کسی بھی ظالمانہ اور غیر منصفانہ صورتحال میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔