Power of Attorney Fraud Case: Key Legal Points and Court Decision
Power of Attorney Fraud Case: Key Legal Points and Court Decision
The Quest for Justice: A Pivotal Court Ruling and Citizen Rights Protection
Throughout our lives, there are moments when we feel our rights have been violated by others. Yet, we hesitate to knock on the doors of justice. This hesitation can arise from various reasons, such as the complexity of legal procedures, the potential loss of time, or the fear that justice may not be served. However, a recent court ruling exemplifies that legal battles are not only essential but can also restore one’s rights.
This blog will introduce you to the details of a case where both parties presented compelling legal arguments to defend their rights. The aim of this blog is to help you understand the legal principles behind the decision and how it protected one person’s rights. Let’s delve into this story.
انصاف کے حصول کی کہانی: ایک اہم عدالتی فیصلہ اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت
زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے حقوق کسی دوسرے کی وجہ سے پامال ہوئے ہیں۔ لیکن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس ہچکچاہٹ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً قانونی کارروائی کے مراحل کا مشکل ہونا، وقت کا ضیاع، یا یہ خوف کہ کہیں انصاف کی جگہ ناانصافی نہ ہو جائے۔ تاہم، ایک حالیہ عدالتی فیصلہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ قانونی جدوجہد نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس سے حق کو دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ بلاگ آپ کو ایک ایسے مقدمے کی تفصیل سے روشناس کرائے گا جس میں دونوں فریقین نے اپنے حقوق کے دفاع میں بھرپور قانونی دلائل دیے۔ اس بلاگ کا مقصد ہے کہ آپ اس فیصلے کے پیچھے موجود قانونی نکتہ سمجھیں اور یہ کہ یہ کیسے ایک شخص کے حقوق کو پامال ہونے سے بچا سکا۔ آئیں، اس کہانی کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2024SCMR1683 | General Power Of Attorney مختار نامہ عام | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | سید حسن اظہر رضوی اور عقیل احمد عباسی | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
ذکر الرحمان اور دیگر — مدعا علیہان | بنام | سید پرویز حسین اور دیگر — درخواست گزار | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | عقیل احمد عباسی |

Background of the Case
This story revolves around Fazlur Rahman, who owned a 200 square-yard plot in the Nazimabad area of Karachi. In 1955, he applied for official rights to the plot and, after navigating various processes and paying legal fees, he was allotted the plot. This plot was of immense importance to him, and he intended to build a house there. Unfortunately, due to financial constraints, this dream was never realized.
In 1982, Fazlur Rahman discovered that his plot had been allegedly transferred to someone else’s name. Upon investigation, he found out that the purchase of his plot was based on a purported “Power of Attorney” which he had never issued. Fazlur Rahman decided to take immediate legal action against this fraud.
مقدمے کا پس منظر
یہ کہانی فضل الرحمان کی ہے، جو کراچی کے علاقے ناظم آباد کے ایک 200 گز کے پلاٹ کے مالک تھے۔ 1955 میں انہوں نے سرکاری طور پر پلاٹ کے حقوق حاصل کرنے کے لیے درخواست دی اور مختلف مراحل اور قانونی فیسیں ادا کرنے کے بعد انہیں یہ پلاٹ الاٹ کیا گیا۔ یہ پلاٹ ان کے لیے بہت اہم تھا اور ان کا ارادہ تھا کہ یہاں ایک گھر بنایا جائے۔ مگر مالی مسائل کے سبب یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
سن 1982 میں فضل الرحمان کو یہ علم ہوا کہ ان کے پلاٹ کو مبینہ طور پر کسی اور کے نام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ جب انہوں نے تحقیقات کی تو پتا چلا کہ ان کے پلاٹ کی خریداری ایک نام نہاد “پاور آف اٹارنی” (وکیل نامہ) کی بنیاد پر کی گئی ہے، جو انہوں نے کبھی کسی کو نہیں دی۔ فضل الرحمان نے فوری طور پر اس جعلسازی کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
Court Proceedings
Fazlur Rahman approached the court, claiming that the plot had been illegally transferred. According to him, he had never authorized the sale of the plot, and the “Power of Attorney” was a forgery. His lawyer presented strong legal arguments, stating that the document could not be legally substantiated due to the lack of credible evidence.
On the other hand, the defendants’ lawyer argued that the plot transfer was legitimate and that the “Power of Attorney” was a valid document. They contended that the document bore the notarized seal, which reinforced its legal standing. They further stated that the buyer had paid the full price and taken possession of the plot as per the agreement.
عدالت میں مقدمے کی کاروائی
فضل الرحمان نے عدالت سے رجوع کیا اور دعویٰ دائر کیا کہ پلاٹ کو غیر قانونی طور پر منتقل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے کبھی کسی کو اس پلاٹ کی فروخت کا اختیار نہیں دیا، اور “پاور آف اٹارنی” کا معاملہ سراسر جعلسازی ہے۔ فضل الرحمان کی جانب سے ان کے وکیل نے مضبوط قانونی دلائل پیش کیے، جس میں کہا گیا کہ اس دستاویز کو قانونی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر کوئی قابل اعتبار شہادت موجود نہیں ہے۔
دوسری جانب مدعاعلیہان کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ پلاٹ کی منتقلی درست طریقے سے ہوئی اور “پاور آف اٹارنی” ایک مستند دستاویز ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس دستاویز پر باقاعدہ نوٹری پبلک کی مہر ثبت ہے، جس سے اس کی قانونی حیثیت مضبوط ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فروخت کنندہ کی جانب سے مکمل قیمت ادا کی گئی اور معاہدے کی بنیاد پر اس کا قبضہ حاصل کیا گیا۔
Analysis of Legal Points and Evidence
During the court hearings, both sides raised several legal points. Fazlur Rahman’s lawyer emphasized Article 79 of the Law of Evidence, which stipulates that a document is not admissible in court unless it is duly verified by two witnesses. He informed the court that the Power of Attorney was neither registered nor verified by witnesses, as required by law.
Furthermore, he cited the Transfer of Property Act and the Registration Act, which mandate that any property transfer document worth 100 rupees or more must be registered. Since this requirement was not met in this case, he requested the court to declare the document fraudulent.
The defendants’ lawyer referred to Article 95, which states that a document certified by a notary public can be legally recognized. However, the court observed that since the primary Power of Attorney did not meet the verification requirements, Article 95 did not apply in this case. The defendants failed to present any witnesses or original documents to support their claim in court.
قانونی نکات اور شواہد کا تجزیہ
عدالت میں دونوں طرف کے وکلاء نے دلائل کے دوران مختلف قانونی نکات اٹھائے۔ درخواست گزار (فضل الرحمان) کے وکیل نے قانون شہادت کے آرٹیکل 79 پر زور دیا، جس کے مطابق اگر کوئی دستاویز قانونی طور پر دو گواہوں کے ذریعے تصدیق شدہ نہ ہو تو اسے عدالت میں قابل قبول شہادت نہیں مانا جا سکتا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پاور آف اٹارنی نہ تو رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی اس پر گواہوں کی تصدیق موجود ہے، جو کہ قانون کی نظر میں لازمی ہے۔
مزید برآں، انہوں نے قانون انتقال جائیداد (ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ) اور رجسٹریشن ایکٹ کا حوالہ دیا جس کے تحت ایسی کوئی بھی جائیداد جو 100 روپے یا اس سے زیادہ کی مالیت کی ہو، اس کی منتقلی کا دستاویز لازمی طور پر رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ چونکہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا تھا، لہذا انہوں نے اسے جعلی قرار دینے کی استدعا کی۔
مدعا علیہان کے وکیل نے آرٹیکل 95کا حوالہ دیا، جس کے مطابق کسی نوٹری پبلک کی تصدیق شدہ دستاویز کو قانونی طور پر درست مانا جا سکتا ہے، تاہم عدالت نے محسوس کیا کہ چونکہ بنیادی پاور آف اٹارنی کی تصدیق کی ضرورت پوری نہیں کی گئی، اس لیے آرٹیکل 95 کا اطلاق اس معاملے میں نہیں ہوتا۔ مدعا علیہان کی طرف سے کسی بھی گواہ یا اصلی دستاویز کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جس سے ان کے دعوے کو تقویت مل سکے۔
Court’s Decision and Impact
After several months of hearings, the court ruled in favor of Fazlur Rahman. The court declared that since the Power of Attorney was neither registered nor legally validated, it was deemed illegal. The court restored the plot’s ownership to Fazlur Rahman’s legal heirs and granted them full rights.
The court further stated that since the plaintiff’s rights had been unjustly violated, the property must be returned to them in its original condition. The defendants were ordered to vacate the property within 90 days and hand it back to Fazlur Rahman’s heirs.
عدالت کا فیصلہ اور اثرات
کئی ماہ کی سماعت کے بعد، عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے فضل الرحمان کے حق میں فیصلہ دیا۔ عدالت نے یہ واضح کیا کہ چونکہ پاور آف اٹارنی نہ تو رجسٹرڈ تھی اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی حیثیت ثابت کی جا سکی، اس لیے اسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ عدالت نے اس پلاٹ کی ملکیت فضل الرحمان کے قانونی ورثاء کے حق میں بحال کر دی اور ان کو مکمل حقوق دیے گئے۔
عدالت نے مزید یہ کہا کہ چونکہ درخواست گزار کے حقوق کو ناجائز طور پر پامال کیا گیا تھا، اس لیے انہیں ان کی جائیداد خالی حالت میں واپس دی جائے۔ مدعا علیہان کو حکم دیا گیا کہ 90 دن کے اندر اندر جائیداد کو خالی کر کے فضل الرحمان کے ورثاء کو واپس کر دی جائے۔
Important Message for Citizens
This ruling teaches us a significant lesson: legal struggles for our rights are never in vain. Fazlur Rahman demonstrated that a truthful effort can lead to success. If your rights are being violated, you should approach the court and never back down from legal proceedings.
شہریوں کے لیے اہم پیغام
یہ فیصلہ ہمیں ایک اہم سبق دیتا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے قانونی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس مقدمے میں فضل الرحمان نے ثابت کیا کہ سچائی کے ساتھ کی گئی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اگر آپ کے حقوق پامال ہو رہے ہوں تو آپ کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے اور قانونی کارروائی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔
Importance of Legal Struggle
This case proved that justice can be achieved through legal means. Fazlur Rahman’s struggle sends a message that every citizen should protect their rights, and if someone tries to infringe upon them, they should seek legal recourse. This case reminds us that a legal path exists at every step, but it requires courage and conviction.
قانونی جدوجہد کی اہمیت
اس مقدمے نے ثابت کیا کہ قانون کا سہارا لے کر سچائی کو پایا جا سکتا ہے۔ فضل الرحمان کی جدوجہد یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے اور اگر کوئی اسے پامال کرنے کی کوشش کرے تو اسے قانون کا سہارا لینا چاہیے۔ یہ ایک ایسا کیس ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر قدم پر قانونی راستہ موجود ہے، بس اس کے لیے ہمت اور یقین کی ضرورت ہے۔
Conclusion
Fazlur Rahman’s case and its verdict serve as a lesson for Pakistani citizens on the importance of standing up for their rights. The courts are there to provide justice, and it is our duty to approach them to seek justice. If you believe your rights have been violated, cast aside hesitation, step forward, and raise your voice.
اختتامیہ
فضل الرحمان کا مقدمہ اور اس کا فیصلہ پاکستانی شہریوں کے لیے ایک سبق آموز مثال ہے کہ کس طرح ہم سب کو اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونا چاہیے۔ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ انصاف فراہم کریں، اور ہمارا کام ہے کہ ہم انصاف کے حصول کے لیے ان سے رجوع کریں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا حق پامال ہوا ہے تو ہچکچاہٹ کو چھوڑ کر آگے بڑھیں اور اپنی آواز بلند کریں۔