Khula, Oppression, and Justice: A Landmark Case for Women’s Rights in Pakistan
A Woman’s Quest for Rights: Khula, Oppression, and a Historic Judgment
Introduction
This is the story of Miss Taj Begum, a Pakistani woman who sought the court’s intervention to end her marriage. Her narrative not only highlights a significant judicial decision but also clarifies a woman’s rights under legal complexities and Sharia law. This blog is for those citizens who have the courage to pursue legal avenues for their rights, conveying the message that the doors of justice are open to everyone.
ایک عورت کے حقوق کی جستجو: خلع، ظلم، اور عدالت کا تاریخی فیصلہ
تعارف
یہ کہانی ہے مس تاج بیگم کی، جو ایک پاکستانی عورت ہیں اور جنہوں نے شادی کے اختتام کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ ان کی داستان نہ صرف ایک اہم عدالتی فیصلے کو نمایاں کرتی ہے بلکہ اس میں قانونی پیچیدگیوں اور شرعی قوانین کے تحت عورت کے حقوق کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ یہ بلاگ ان شہریوں کے لیے ہے جو اپنے حقوق کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، اور یہ پیغام دیتا ہے کہ انصاف کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہیں۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2006SCMR100 | Dissolution Of Marriage, Khula خلع، تنسیخ نکاح | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | فقیر محمد کھوکھر اور کرامت نذیر بھنڈاری | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، علی پور، ضلع مظفرگڑھ اور دیگر — مدعا علیہان | بنام | عابد حسین — درخواست گزار | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | کرامت نذیر بھنڈاری |

Background of the Case
Miss Taj Begum filed a case in the Family Court against her husband, Abid Hussain, seeking the dissolution of her marriage on the grounds of oppression and non-payment of maintenance. The Family Court ruled in her favor based on Khula (a woman’s right to divorce) and ordered her to return the 5-marla house given to her at the time of marriage. However, the respondent challenged this decision and sought approval for the dissolution of marriage on the grounds of oppression to avoid returning the house. The respondent then appealed against the Family Court’s decision in the Lahore High Court, Multan Bench.
مقدمے کا پس منظر
مس تاج بیگم نے اپنے شوہر عابد حسین کے خلاف ظلم اور نان نفقہ کی بنیاد پر نکاح کے اختتام کے لیے فیملی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ فیملی کورٹ نے خلع کی بنیاد پر ان کے حق میں فیصلہ دیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ 5 مرلہ کا گھر واپس کریں جو نکاح کے وقت انہیں دیا گیا تھا۔ تاہم، اس فیصلے کو مدعا علیہ نے چیلنج کیا اور ظلم کی بنیاد پر نکاح کے اختتام کی ڈگری کی منظوری کی درخواست دی، تاکہ انہیں گھر واپس نہ کرنا پڑے۔ اس فیصلے پر مدعا علیہ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں اپیل دائر کی۔
Arguments by the Parties’ Lawyers
Arguments by the Petitioner’s Lawyer (Abid Hussain)
The petitioner’s lawyer argued that the Family Court’s decision was correct, as the dissolution of marriage was granted solely on the basis of Khula and not on the grounds of oppression. He emphasized that under Section 14 of the Family Courts Act 1964, no appeal could be filed against this decree, and requested the court to uphold the wife’s initial claim.
Arguments by the Respondent’s Lawyer (Miss Taj Begum)
The respondent’s lawyer argued that the wife should also be granted the dissolution of marriage on the grounds of oppression and non-payment of maintenance, and that she should not be forced to return the house. The lawyer highlighted that justice should be provided to the wife, and her rights should not be ignored.
فریقین کے وکلاء کے دلائل
درخواست گزار کے وکیل (عابد حسین) کے دلائل
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ فیملی کورٹ کا یہ فیصلہ درست تھا کہ نکاح کے اختتام کی ڈگری صرف خلع کی بنیاد پر دی گئی ہے اور ظلم کی بنیاد پر نہیں۔ انہوں نے اس نکتے پر بھی زور دیا کہ فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کی دفعہ 14 کے تحت اس ڈگری کے خلاف اپیل دائر نہیں کی جا سکتی، اور عدالت سے مطالبہ کیا کہ بیوی کو اپنے سابقہ دعوے میں قائم رکھا جائے۔
مدعا علیہ (مس تاج بیگم) کے وکیل کے دلائل
مدعا علیہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ ظلم اور نان نفقہ کی بنیاد پر بھی بیوی کو نکاح کے اختتام کی ڈگری دی جانی چاہئے، اور یہ کہ ان کی مؤکلہ کو گھر واپس کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ وکیل نے عدالت کے سامنے یہ نکتہ اٹھایا کہ بیوی کو انصاف فراہم کیا جائے اور اس کے حقوق کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
Legal Point: Interpretation of Section 14 of the Family Courts Act 1964
Section 14 of the Family Courts Act clarifies that certain decisions of the Family Court, particularly in cases of marriage dissolution, are not appealable. The purpose of this provision is to protect women from legal complexities and prolonged court proceedings. The court also emphasized that if a woman is denied the dissolution of marriage on the grounds of oppression, she should have the right to appeal to ensure justice.
قانونی نکتہ: فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کی دفعہ 14 کی تشریح
فیملی کورٹ ایکٹ کی دفعہ 14 میں وضاحت ہے کہ فیملی کورٹ کے بعض فیصلے اپیل کے قابل نہیں ہوتے، خصوصاً نکاح کے اختتام کے کیس میں۔ اس شق کا مقصد عورت کو قانونی پیچیدگیوں اور لمبی عدالتی کارروائی سے محفوظ رکھنا ہے۔ عدالت نے بھی اس نکتے پر زور دیا کہ اگر ایک عورت کو ظلم کی بنیاد پر نکاح کے اختتام سے انکار کیا گیا ہو، تو اس کے پاس اپیل کا حق ہونا چاہئے تاکہ اسے انصاف فراہم کیا جا سکے۔

Supreme Court’s Decision and Its Significance
After hearing both parties’ arguments and reviewing the evidence in detail, the Supreme Court ruled that the wife is entitled to the dissolution of marriage on the grounds of oppression as well. Additionally, the court held that the Family Court has the authority to decide on appeals based on evidence of oppression.
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کی اہمیت
سپریم کورٹ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے اور شواہد کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ بیوی کو ظلم کی بنیاد پر بھی نکاح کے اختتام کی ڈگری کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ، عدالت نے فیصلہ دیا کہ فیملی کورٹ کا یہ اختیار ہے کہ وہ ظلم کے شواہد کو دیکھ کر اپیل کا فیصلہ کرے۔
Message for Citizens
This case serves as an example for every citizen that it is essential to knock on the doors of the court. The court protected women’s rights in this case and sent a positive message that everyone should have the opportunity to stand up for their rights.
شہریوں کے لیے پیغام
یہ مقدمہ ہر شہری کے لیے ایک مثال ہے کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری ہے۔ عدالت نے اس مقدمے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا اور ایک مثبت پیغام دیا کہ ہر شخص کو اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کا موقع ملنا چاہئے۔
Conclusion
This story teaches us that if someone is facing oppression, they can seek justice through the legal system. This blog encourages citizens to take the legal path and inspires them to stand up for their rights.
اختتام
یہ کہانی اس بات کا سبق دیتی ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ظلم ہو رہا ہو، تو وہ عدالتی راستہ اختیار کر کے انصاف حاصل کر سکتا ہے۔ یہ بلاگ شہریوں کو قانونی راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے اور انہیں اس بات کی طرف مائل کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں۔