How Courts Protect Citizens’ Rights: A True Story

How Courts Protect Citizens’ Rights: A True Story

How Courts Protect Citizens’ Rights: A True Story

A Legal Battle: The Story of Reclaiming Rights

Introduction

This is the story of Muhammad Arif and Saima Noreen, who were each other’s companions for a short period after their marriage. Their journey through strained relations, separation, and ultimately fighting for their rights in court demonstrates the power of the legal system and the awareness of citizens’ rights. This narrative is for those striving to reclaim their rights and seeking to understand how the court can support them.

ایک عدالتی جنگ: حقوق کی بازیابی کی کہانی

تعارف

یہ کہانی ہے محمد عارف اور صائمہ نورین کی، جو نکاح کے بعد ایک مختصر عرصے کے لیے ایک دوسرے کے ہمسفر تھے۔ تعلقات میں تلخی، علیحدگی کی راہ پر چلنے، اور بالآخر عدالت میں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ان کی کہانی ہمیں قانون کے نظام کی طاقت اور شہریوں کے حقوق کا شعور عطا کرتی ہے۔ یہ تحریر ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں اور یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ عدالت کیسے ان کا ساتھ دے سکتی ہے۔

عدالتی فیصلہ  پر  اردو بلاگ
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر2024SCMR734Dissolution Of Marriage, Khula خلع، تنسیخ نکاح
کس  عدالت نے کیس  سناسپریم کورٹ آف پاکستان
جن جسٹس  صاحبان نے کیس سناسرمد جلال عثمانی اور قاضی فائز عیسیٰ
جوابی درخواست گزاران درخواست گزاران
صائمہ نورین اور دیگر — مدعا علیہانبناممحمد عارف — درخواست گزار
فیصلہ لکھنے والا جسٹس سرمد جلال عثمانی

Part I: Background of Marriage and Separation

Muhammad Arif and Saima Noreen got married in 2010 according to Islamic customs. However, after some time, cracks began to appear in their relationship. Eventually, Saima filed a case under the “Dissolution of Muslim Marriages Act, 1939,” seeking a divorce on the grounds of cruelty. Additionally, she requested the return of dowry items and possession of the house given as dower.

حصہ اول: نکاح اور علیحدگی کا پس منظر

محمد عارف اور صائمہ نورین نے 2010 میں اسلامی طریقے سے نکاح کیا، لیکن کچھ عرصے بعد ان کے تعلقات میں دراڑیں آنے لگیں۔ بالآخر، سائمہ نے اپنی شادی کو تحلیل کرنے کے لیے “تحلیل مسلم نکاح ایکٹ، 1939” کے تحت مقدمہ دائر کیا، جس میں ظلم کی بنیاد پر طلاق کی درخواست دی۔ ساتھ ہی، جہیز کے سامان کی واپسی اور مہر کے طور پر ملنے والے مکان پر قبضے کی استدعا کی۔

Part II: The Case in Lower Courts

Saima filed a claim in the Family Court, where she alleged daily cruelty by her husband and his family. The court, considering Saima’s statements, issued an order for the dissolution of the marriage. However, Muhammad Arif appealed this decision, and the case ultimately reached the Supreme Court.

حصہ دوم: ابتدائی عدالتوں میں مقدمہ

صائمہ نے فیملی کورٹ میں دعویٰ کیا، جہاں اس نے اپنے شوہر اور اس کے خاندان کی طرف سے روز مرہ کے ظلم کا دعویٰ کیا۔ عدالت نے سائمہ کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی کے تحلیل کا حکم جاری کیا، لیکن محمد عارف نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی، اور مقدمہ بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچا۔

Part III: Muhammad Arif’s Stance

Muhammad Arif’s lawyer, Muhammad Bashir Mughal, argued that the evidence presented by Saima did not provide any solid proof of cruelty. According to him, if cruelty existed, there should have been physical evidence or a medical certificate. The lawyer also highlighted Saima’s statement in court, where she admitted that she was living happily with Muhammad Arif.

Furthermore, Muhammad Bashir Mughal referred to a specific clause of the law, Section 10 of the “Family Courts Act 1964,” which states that in case of dissolution of marriage on the basis of Khula, the wife has to forgo the dower.

حصہ سوم: محمد عارف کا مؤقف

محمد عارف کے وکیل، محمد بشیر مغل، نے دلیل دی کہ صائمہ کی طرف سے پیش کردہ شواہد میں ظلم کے دعویٰ کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ ان کے مطابق، اگر یہ ظلم تھا تو اس کا جسمانی ثبوت یا میڈیکل سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے تھا۔ وکیل نے عدالت کے سامنے صائمہ کے بیان پر بھی زور دیا کہ اس نے اعتراف کیا کہ وہ محمد عارف کے ساتھ خوشی سے رہ رہی تھی۔

مزید برآں، محمد بشیر مغل نے قانون کی ایک خاص شق، یعنی “فیملی کورٹ ایکٹ 1964” کی دفعہ 10 کا حوالہ دیا، جس کے مطابق اگر خلع پر شادی کا تحلیل ہو تو بیوی کو مہر چھوڑنا پڑتا ہے۔

Part IV: Saima Noreen’s Stance

Saima Noreen’s lawyer, M. Saleheen Mughal, argued that cruelty is not only physical but can also be mental torture. Saima had testified in the Family Court that she was subjected to daily mental torture, which compelled her to leave the house. The lawyer emphasized that when the lower courts had acknowledged that Muhammad Arif had subjected Saima to cruelty, the higher court should not intervene.

حصہ چہارم: صائمہ نورین کا مؤقف

صائمہ نورین کے وکیل، ایم. صالحین مغل، نے دلائل دیے کہ ظلم صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی اذیت بھی ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔ سائمہ نے فیملی کورٹ میں بیان دیا تھا کہ وہ روزانہ ذہنی اذیت سے دوچار تھی اور اس کے گھر چھوڑنے کی وجہ بھی یہی ذہنی دباؤ تھا۔ وکیل نے عدالت پر زور دیا کہ جب نچلی عدالتوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ محمد عارف نے سائمہ کو اذیت دی، تو اعلیٰ عدالت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

Part V: Court’s Decision and Legal Points

After hearing both sides’ arguments, the court decided that the Family Court could not order the dissolution of marriage on the grounds of cruelty, as there was no clear evidence of cruelty. Therefore, the court ordered the dissolution of the marriage based on Khula and instructed Saima to forgo the dower. Additionally, the court ordered that the house given as dower should be returned to Muhammad Arif.

حصہ پنجم: عدالت کا فیصلہ اور اس کے قانونی نکات

عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کیا کہ فیملی کورٹ ظلم کی بنیاد پر شادی کے تحلیل کا حکم جاری نہیں کر سکتی، کیونکہ ظلم کے واضح شواہد موجود نہیں تھے۔ اس لیے، عدالت نے خلع کی بنیاد پر شادی کا تحلیل کرنے کا حکم جاری کیا اور سائمہ کو مہر چھوڑنے کا کہا۔ مزید برآں، عدالت نے حکم دیا کہ مہر کے طور پر دیا گیا مکان محمد عارف کے نام واپس کیا جائے۔

Part VI: Encouraging Aspect for Public Rights

This decision reflects that courts respect citizens’ rights and thoroughly examine any legal claims of Khula or cruelty. From this story, an ordinary citizen can learn that if they are facing any injustice, they can seek their rights through the court. It is also noteworthy that cruelty can be both physical and mental, for which legal redress can be sought in court.

حصہ ششم: عوامی حقوق کے لئے حوصلہ افزا پہلو

یہ فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ عدالتیں شہریوں کے حقوق کا احترام کرتی ہیں اور خلع یا ظلم کے کسی بھی قانونی دعویٰ پر گہرائی سے غور کرتی ہیں۔ اس کہانی سے ایک عام شہری یہ سیکھ سکتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی ہو رہی ہو تو وہ اپنے حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ظلم صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہو سکتا ہے، جس کا قانونی حق عدالت میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Conclusion

This blog not only details a court decision but also serves as an inspiration for those who want to pursue legal struggle for their rights. This story conveys that the court is an institution that provides justice, and any citizen can reclaim their rights under the law’s umbrella. If you also have a desire to reclaim your rights, now is the time to step forward for your rights.

نتیجہ

یہ بلاگ نہ صرف ایک عدالتی فیصلے کی تفصیل بیان کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ ہے جو اپنے حقوق کے لیے قانونی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ عدالت انصاف فراہم کرنے کا ادارہ ہے اور کوئی بھی شہری قانون کی چھتری تلے اپنے حقوق کی بازیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر آپ کے دل میں بھی اپنے حقوق کی بازیابی کی خواہش ہے تو یہ وقت ہے کہ اپنے حق کے لیے آگے بڑھیں۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *