Dissolution Of Muslim Marriage Pakistan & Khula
This story begins with Khurram Shahzad, an ordinary Pakistani citizen, who approaches the court against a family court’s decision. His issue arises when his wife files for Khula (divorce initiated by the wife) in court, and a family court judge grants the Khula without his consent. Khurram is troubled by how such a decision could be made without his knowledge and whether it aligns with Islamic principles. He believes that the husband’s consent is necessary for Khula, and this forms the basis of his petition.
تعارف
اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے خرم شہزاد سے، جو ایک عام پاکستانی شہری ہیں اور فیملی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ ان کا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ان کی اہلیہ نے خلع کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور ایک فیملی کورٹ کے جج نے ان کی رضامندی کے بغیر خلع کا فیصلہ سنایا۔ خرم کو یہ بات چبھتی ہے کہ ان کے علم کے بغیر ایسا فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے اور کیا یہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہے؟ ان کا یہ ماننا ہے کہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، اور یہی بنیاد ہے ان کی اس درخواست کی۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2023PLD286 | Dissolution Of Marriage, Khula خلع، تنسیخ نکاح | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | ڈاکٹر سید محمد انور، قائم مقام چیف جسٹس اور خادم حسین ایم شیخ | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
پاکستان فیڈریشن بذریعہ وزارت قانون و انصاف، کمیشن آف پاکستان، اسلام آباد اور دیگر — جواب دہندگان | بنام | خرم شہزاد — درخواست گزار | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | ڈاکٹر سید محمد انور |
Basis of the Case and Legal Question
Khurram Shahzad’s lawyer presented the argument before the court that granting Khula without the husband’s consent under Section 10(4) of the Family Courts Act 1964 is un-Islamic and contrary to Islamic principles. The lawyer requested that this section be examined in light of the Quran and Sunnah to determine whether it violates Islamic teachings.
Petitioner’s Stance and Lawyer’s Argument
Khurram’s lawyer argued that the husband’s consent is mandatory for Khula to be valid. They referenced Surah Al-Baqarah of the Quran and various Hadiths, stating that Islam grants the right of divorce to the husband, and Khula is only valid if both parties mutually agree to it. They contended that it is a violation of Islamic principles for a wife to be granted Khula without the husband’s consent.
مقدمہ کی بنیاد اور قانونی سوال
خرم شہزاد کے وکیل نے عدالت کے سامنے درخواست پیش کی کہ فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کی دفعہ 10(4) کے تحت شوہر کی رضامندی کے بغیر دیا جانے والا خلع غیر اسلامی ہے اور یہ قانون اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس دفعہ کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ یہ واضح ہو کہ آیا اس میں واقعی اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے یا نہیں۔
درخواست گزار کا موقف اور وکیل کی دلیل
خرم کے وکیل نے دلیل دی کہ خلع کی منظوری کے لیے شوہر کی رضامندی لازمی ہے۔ انہوں نے قرآن کی سورہ البقرہ اور مختلف احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام نے طلاق کا حق شوہر کو دیا ہے اور خلع کا فیصلہ اسی صورت میں درست ہے جب دونوں فریق رضامندی سے اسے قبول کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے کہ بیوی کو شوہر کی مرضی کے بغیر خلع مل جائے۔
Respondent’s Stance and Lawyer’s Argument
The respondent’s lawyer countered by arguing that Khula is entirely in accordance with Islamic principles and is a right granted to women by Islam. The lawyer stated that the purpose of Khula is to empower women to end their marital life if they face difficulties. Citing various judicial precedents, the lawyer argued that if reconciliation efforts fail, the court has the authority to grant Khula.
Court’s Decision
The court heard Khurram Shahzad’s petition in detail and deliberated on it. The court examined various Islamic principles, Quranic verses, and Hadiths. It also referenced previous judicial rulings, which stated that Khula functions as an irrevocable divorce, and both spouses can remarry with mutual consent if they wish, without the husband’s consent being a prerequisite.
جواب دہندگان کا موقف اور وکیل کی دلیل
جواب دہندہ کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ خلع اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو اسلام نے خواتین کو دیا ہے۔ وکیل نے کہا کہ خلع کا مقصد خواتین کو یہ اختیار دینا ہے کہ وہ ازدواجی زندگی کو ختم کر سکیں اگر ان کے لیے اس میں مشکلات ہوں۔ وکیل نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر مصالحتی کوششیں ناکام ہو جائیں تو عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ خلع کا فیصلہ دے سکے۔
عدالت کا فیصلہ
عدالت نے خرم شہزاد کی درخواست کو تفصیل سے سنا اور اس پر غور کیا۔ عدالت نے مختلف اسلامی اصولوں، قرآن کی آیات اور احادیث کا مطالعہ کیا۔ عدالت نے اس فیصلے میں سابقہ عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا، جن میں یہ کہا گیا تھا کہ خلع ایک واحد ناقابل رجوع طلاق کے طور پر کام کرتا ہے اور دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ شادی کر سکتے ہیں، اگر وہ چاہیں، اور شوہر کی رضامندی اس میں ضروری نہیں۔
Details of the Decision and Legal Perspective
The court declared Khula as a unique right granted to women by Islam, stating that the husband’s consent is not mandatory for Khula. The court emphasized that the principles of Khula are in complete alignment with Islamic teachings and provide women with autonomy in matters of their marital life. After Khula, the woman must observe the waiting period (Iddah), but she has the right to remarry. The court also clarified the legal distinction between divorce initiated by the husband and Khula initiated by the wife.
Difference Between Khula and Divorce
The key difference between Khula and divorce is that Khula is a woman’s right, allowing her to end her marital life if she faces issues, while the right to divorce lies with the husband. If a husband issues a third divorce, the woman cannot remarry the same person unless she marries someone else first. However, this is not the case with Khula, as the woman does not need to marry someone else before remarrying her former husband.
فیصلے کی تفصیل اور قانونی نکتہ نظر
عدالت نے خلع کو ایک منفرد حق قرار دیا جو اسلام نے خواتین کو دیا ہے، اور کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ شوہر کی رضامندی خلع کے لیے لازمی ہو۔ عدالت نے کہا کہ خلع کے اصول اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور یہ خواتین کو اپنی ازدواجی زندگی کے معاملات میں اختیار دیتا ہے۔ خلع کے بعد عورت کو عدت گزارنی ضروری ہے، مگر دوبارہ شادی کے لیے اس کے پاس اختیار ہوتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ شوہر کی جانب سے دی گئی طلاق اور خلع میں قانونی فرق ہے۔
خلع کے اصول اور طلاق میں فرق
خلع اور طلاق کے درمیان فرق یہ ہے کہ خلع عورت کا حق ہے جو اسے ازدواجی زندگی ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے اگر اسے مسائل کا سامنا ہو، جبکہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہوتا ہے۔ اگر شوہر تیسری طلاق دے دے تو عورت دوبارہ اسی شخص سے نکاح نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ کسی دوسرے سے شادی نہ کرے۔ مگر خلع میں ایسا نہیں ہے، اور عورت کو دوبارہ اپنے شوہر سے نکاح کے لیے اس کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں۔
Lesson for Citizens and the Purpose of Inspiration
This decision sends a clear message to citizens that if their rights are being violated, they should not hesitate to seek legal recourse. Women, in particular, need to raise their voices to claim their rights, as Khula is a legal right granted to them by Islam. Women do not need their husband’s consent to obtain Khula, and the courts are there to protect their rights.
Impact of the Story and Emotional Motivation
Khurram Shahzad’s story serves as a lesson for Pakistani society that we must strive legally to secure our rights. This decision highlights the importance of the judiciary’s role in upholding Islamic principles and protecting citizens’ rights. Khula is a strong support system for women, and they should step forward to claim their rights.
شہریوں کے لیے سبق اور جذبہ پیدا کرنے کا مقصد
یہ فیصلہ شہریوں کے لیے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ اگر آپ کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو عدالت کا سہارا لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ خواتین کو بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، اور خلع ایک قانونی حق ہے جسے اسلام نے انہیں دیا ہے۔ خلع کے حق کو حاصل کرنے کے لیے عورتوں کو شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے اور عدالتیں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔
کہانی کا اثر اور جذباتی ترغیب
خرم شہزاد کی کہانی پاکستانی معاشرے کے لیے ایک سبق ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے قانونی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عدالتوں کا کردار بہت اہم ہے اور عدالتیں شہریوں کے حقوق کی پاسداری کرتی ہیں۔ خلع کا حق خواتین کے لیے ایک مضبوط سہارا ہے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے آگے آنا چاہیے۔
Conclusion
This judicial decision is a significant step that clarifies Khula as a legitimate right under Islamic principles and encourages women to approach the courts to claim their rights. It also teaches that societal issues can be resolved through legal means, and the judiciary is present to deliver justice in light of Islamic principles.
نتیجہ
یہ عدالتی فیصلہ ایک اہم قدم ہے جو واضح کرتا ہے کہ خلع اسلامی اصولوں کے مطابق ایک جائز حق ہے اور خواتین کو اپنے حقوق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ اس فیصلے سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ معاشرتی مسائل کا حل قانونی طریقے سے کیا جا سکتا ہے اور عدلیہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں انصاف فراہم کرنے کے لیے موجود ہے۔
Great job mashallah. Keep up the good work. Very informative 👍🏻