
Khula Rights in Muslim Marriage: Supreme Court’s Landmark Ruling & Legal Implications
The Right to Khula and Muslim Marriage: The Supreme Court’s Historic Decision and Its Legal Significance
Introduction
This is the story of Mrs. Kaniz Fatima, who faced unbearable circumstances in her marriage with Muhammad Rafiq and sought the dissolution of her marriage through khula from the court. In this case, the Supreme Court not only upheld her right but also strengthened the protection of women’s rights under Islamic law. The court’s decision sent a clear message that when there is irreconcilable discord and deep-seated hatred between a husband and wife, a woman has the right to improve her life through khula.
خلع کا حق اور مسلم نکاح: سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ اور اس کی قانونی اہمیت
تعارف
یہ کہانی مسز کنیز فاطمہ کی ہے، جنہوں نے اپنے شوہر محمد رفیق کے ساتھ زندگی گزارنے میں ناقابل برداشت حالات کا سامنا کیا اور عدالت سے خلع کی بنیاد پر نکاح کے اختتام کی درخواست کی۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے نہ صرف ان کا حق تسلیم کیا بلکہ اسلامی قانون میں عورت کے حقوق کے تحفظ کو بھی تقویت بخشی۔ عدالت کے فیصلے نے یہ پیغام دیا کہ جہاں شوہر اور بیوی کے درمیان عدم مطابقت اور سخت نفرت ہو، وہاں عورت کو خلع کے ذریعے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا اختیار ہے۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2000SCMR1563 | Dissolution Of Marriage, Khula خلع، تنسیخ نکاح،طلاق | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | ارشاد حسن خان، چیف جسٹس اور قاضی محمد فاروق | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
مس کنیز فاطمہ اور ایک دیگر — مدعا علیہان | بنام | محمد رفیق — درخواست گزار | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | ارشاد حسن خان |

Background of the Case
Kaniz Fatima was married to Muhammad Rafiq at a young age, and conflicts arose between them just days after the marriage. Due to her husband’s abusive behavior, physical violence, and the loss of her dowry, she separated from him and lived apart for a long time. After her first petition for khula was unsuccessful, Kaniz Fatima filed another case, clearly stating that it was now impossible for her to continue living with her husband.
مقدمے کا پس منظر
کنیز فاطمہ کی شادی کم عمری میں محمد رفیق سے ہوئی، اور شادی کے چند دن بعد ہی ان کے تعلقات میں تنازع شروع ہو گیا۔ شوہر کے رویے، جسمانی تشدد، اور جہیز کے ضائع ہونے کے باعث وہ ان سے دور ہو گئیں اور ایک طویل عرصے تک الگ رہیں۔ خلع کی بنیاد پر پہلے مقدمے کے ناکام ہونے کے بعد، کنیز فاطمہ نے ایک اور مقدمہ دائر کیا اور واضح کیا کہ اب ان کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا ناممکن ہے۔
Arguments of the Lawyers
Petitioner’s Lawyer (Muhammad Rafiq)
Muhammad Rafiq’s lawyer, Mr. Rashid Murtaza Qureshi, argued that under Islamic law, khula can only be granted under specific circumstances, such as the husband’s insanity or failure to provide maintenance. He contended that mere differences in temperament or the wife’s dislike could not be grounds for khula. To support his argument, he cited cases such as “Mrs. Syeda Khanum vs. Muhammad Samee” and “Muhammad Umar Bibi vs. Muhammad Deen.”
وکلاء کے دلائل
درخواست گزار کے وکیل (محمد رفیق)
محمد رفیق کے وکیل، جناب رشید مرتضیٰ قریشی، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اسلامی قانون کے تحت خلع صرف مخصوص حالات میں دیا جا سکتا ہے، جیسے کہ شوہر کی پاگل پن یا نان و نفقہ فراہم کرنے میں ناکامی۔ انہوں نے کہا کہ محض مزاج کا اختلاف یا بیوی کی ناپسندیدگی کو خلع کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اس مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے “مسز سیدہ خانم بنام محمد سمیع” اور “محمد عمر بی بی بنام محمد دین” جیسے مقدمات کا حوالہ دیا۔
Respondent’s Lawyer (Kaniz Fatima)
Kaniz Fatima’s lawyer, Mr. Rana Noor Muhammad, argued that his client felt unsafe and unhappy living with her husband and that Islamic law grants a woman the right to khula if her life has become unbearable. He urged the court that in cases where there is extreme incompatibility and hatred between spouses, the court should grant khula.
مدعا علیہ کے وکیل (کنیز فاطمہ)
کنیز فاطمہ کے وکیل، جناب رانا نور محمد، نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی مؤکلہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے میں غیر محفوظ اور غیر مطمئن ہیں، اور یہ کہ اسلامی قانون عورت کو خلع کا حق دیتا ہے اگر ان کی زندگی ناقابل برداشت ہو چکی ہو۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ایسے حالات میں جہاں شوہر اور بیوی کے درمیان عدم ہم آہنگی اور سخت نفرت ہو، عدالت کو خلع کی ڈگری جاری کرنی چاہیے۔

Legal Points and the Right to Khula
The Supreme Court considered precedents such as “Khadija Bibi vs. Muhammad Amin” and “Abdul Rahim vs. Mrs. Shahida Khan” before delivering its verdict. The court stated that marriage in Islamic law is a contract, and if bitterness between spouses makes life unbearable, Islam grants women the right to dissolve the marriage through khula. The court also ruled that if a judge believes a couple cannot live within Allah’s boundaries, they may grant khula.
قانونی نکات اور خلع کا حق
سپریم کورٹ نے مختلف مقدمات جیسے “خدیجہ بی بی بنام محمد امین” اور “عبدالرحیم بنام مسز شاہدہ خان” کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا۔ عدالت نے کہا کہ نکاح اسلامی قانون کے تحت محض ایک معاہدہ ہے اور اگر دونوں فریقین کے درمیان ایسی تلخی ہو جس سے زندگی عذاب بن جائے، تو اسلام عورت کو خلع کی بنیاد پر نکاح ختم کرنے کا حق دیتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جہاں قاضی یہ محسوس کرے کہ شوہر اور بیوی اللہ کی حدود کے اندر رہ کر زندگی نہیں گزار سکتے، تو وہ خلع کا فیصلہ دے سکتا ہے۔
The Court’s Decision
The Supreme Court ruled in favor of Kaniz Fatima, recognizing her right to khula and dissolving her marriage with Muhammad Rafiq. The court rejected the argument that khula is only permissible under specific conditions, stating that Islam allows a woman this right if her life has become intolerable. The court further clarified that Islamic law does not restrict the grounds for khula and fully protects women’s rights.
عدالت کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ کنیز فاطمہ اور محمد رفیق کے درمیان خلع کا حق تسلیم کرتے ہوئے نکاح کا اختتام کیا جائے۔ عدالت نے محمد رفیق کے وکیل کے اس استدلال کو مسترد کر دیا کہ خلع صرف مخصوص حالات میں دیا جا سکتا ہے اور کہا کہ اسلام عورت کو اس حق کی اجازت دیتا ہے اگر اس کی زندگی ناقابل برداشت ہو چکی ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسلامی قانون کے تحت خلع کی شرط کو محدود نہیں کیا جا سکتا اور اس میں عورت کے حقوق کا مکمل تحفظ موجود ہے۔
Message for Citizens: Stand Up for Your Rights
This verdict serves as an example for every woman seeking legal protection of her rights. The court made it clear that when marital relations become unbearable with no hope of reconciliation, a woman must be granted khula. This decision teaches us that every individual must stand up for their rights and continue fighting for justice.
شہریوں کے لیے پیغام: اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں
یہ فیصلہ ہر اس عورت کے لیے ایک مثال ہے جو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جہاں مرد اور عورت کے درمیان تعلقات ناخوشگوار ہوں اور ان میں بہتری کی کوئی امید نہ ہو، وہاں عورت کو خلع کا حق دیا جانا چاہیے۔ یہ فیصلہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہر فرد کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے اور انصاف کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔
Conclusion: Encouragement for Justice
This story teaches us that the doors of justice are open to all who seek it. Kaniz Fatima’s struggle is an example that justice is possible if we stand up for our rights. This ruling encourages citizens to awaken to their rights and strengthen their resolve in the pursuit of justice.
اختتام: انصاف کے لیے ترغیب
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عدالت کا دروازہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہے جو انصاف چاہتا ہے۔ کنیز فاطمہ کی جدوجہد ایک مثال ہے کہ اگر ہم اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں تو انصاف کا حصول ممکن ہے۔ یہ فیصلہ شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے بیدار ہونے اور اپنی جدوجہد کو مضبوط کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔