Supreme Court Verdict: Dissolution of Tayiba’s Muslim Marriage
A Case Story: A Woman’s Pursuit of Justice
This is the story of a woman named Tayiba, who approached the court to end her marriage due to her husband’s oppressive behavior. Her husband, whose behavior towards her was extremely cruel and tyrannical, forced her to bear her own expenses, including maternity costs. In the court’s decision, Tayiba’s position was that she could no longer endure this mental and physical torment and wanted to end the relationship.
ایک مقدمے کی داستان: انصاف کی تلاش میں ایک خاتون
یہ کہانی ہے طیبہ نامی خاتون کی، جو اپنی شادی کو ظالمانہ رویے کے سبب ختم کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہیں۔ ان کے شوہر، جن کا رویہ ان کے ساتھ شدید ظالمانہ اور جابرانہ ہوتا ہے، انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے اخراجات خود برداشت کریں، حتیٰ کہ زچگی کے اخراجات بھی انہی کے ذمہ ہوتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے میں طیبہ کا مؤقف یہ تھا کہ وہ اب مزید اس ذہنی اور جسمانی اذیت کو برداشت نہیں کر سکتیں، اور اس رشتے کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2023SCMR246 | Dissolution Of Marriage, Khula خلع، تنسیخ نکاح | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | سردار طارق مسعود، امین الدین خان اور محمد علی مظہر | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
شفقت علی کیانی اور دیگر — جواب دہندگان | بنام | مس طیّبہ عنبرین اور دیگر — درخواست گزاران | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | محمد علی مظہر |
Tayiba’s Position and Lawyer’s Arguments
Tayiba’s lawyer argued in court that his client had faced her husband’s oppressive behavior since the early days of their marriage. Tayiba’s husband’s behavior started changing very quickly, and he began pressuring her in various ways. Even the husband’s family accused Tayiba of questioning the paternity of her child, which caused her severe mental distress. Along with this, the husband insisted that Tayiba deposit her salary into his account and seek permission from him or his family for personal use. Tayiba’s lawyer argued that all these incidents proved that the husband’s behavior made marital life unbearable for his client.
طیبہ کا مؤقف اور وکیل کے دلائل
طیبہ کے وکیل نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی موکلہ کو شادی کے ابتدائی دنوں سے ہی شوہر کے ظالمانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ طیبہ کے شوہر کا رویہ بہت جلد تبدیل ہونے لگا اور انہوں نے مختلف طریقوں سے اپنی بیوی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ شوہر کے اہل خانہ نے یہ الزام بھی لگایا کہ طیبہ کے بچے کی ولدیت پر سوال اٹھایا، جس نے طیبہ کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی، شوہر نے طیبہ پر زور دیا کہ وہ اپنی تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرائیں، اور ذاتی استعمال کے لیے شوہر یا اس کے خاندان سے اجازت لیں۔ طیبہ کے وکیل نے دلیل دی کہ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ شوہر کے رویے نے ان کے موکلہ کے لیے ازدواجی زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔
Husband’s Position and Lawyer’s Arguments
On the other hand, the husband’s lawyer claimed that the case filed by Tayiba was exaggerated. They argued that such minor disputes are common in married life and that Tayiba’s demand for divorce was unreasonable. The husband’s lawyer called Tayiba arrogant and tried to convince the court that the accusations made by his client were without any solid evidence. He stated that marital relationships cannot be ended over trivial matters, and the husband also filed a request for the restoration of conjugal rights.
شوہر کا مؤقف اور وکیل کے دلائل
دوسری طرف، شوہر کے وکیل نے یہ دعویٰ کیا کہ طیبہ کی جانب سے دائر مقدمہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ شادی شدہ زندگی میں اس نوعیت کے معمولی جھگڑے ہر گھر میں ہوتے ہیں اور طیبہ کی جانب سے طلاق کا مطالبہ غیر معقول ہے۔ شوہر کے وکیل نے طیبہ کو متکبر کہا، اور عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کی موکلہ کی طرف سے الزام تراشیاں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ازدواجی رشتہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ختم نہیں کیا جا سکتا اور شوہر نے ازدواجی حقوق کی بحالی کے لیے بھی درخواست دائر کی۔
Court’s Decision and Legal Aspects
The court carefully listened to both sides’ arguments and examined the evidence. The court also observed that the husband’s request for the restoration of conjugal rights was only to avoid paying Tayiba’s dowry and maintenance. The court emphasized that in marital relationships, it is incumbent upon the husband to provide respect and love to his wife and to be her economic and emotional support. The family court clarified in its decision that the husband’s behavior towards Tayiba was against the principles of Islamic marriage. According to Islamic teachings, the husband is obliged to support his wife and give her respect and love in his life. The court referenced Sharia principles, stating that a husband should treat his wife with kindness and respect her rights. The court ruled in favor of Tayiba and dissolved the marriage on the grounds of cruelty.
عدالت کا فیصلہ اور اس کے قانونی پہلو
عدالت نے فریقین کے دلائل کو غور سے سنا اور شواہد کا جائزہ لیا۔ عدالت نے یہ بھی دیکھا کہ شوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق کی بحالی کی درخواست کا مقصد صرف طیبہ کو مہر اور نان و نفقہ کی ادائیگی سے بچنا تھا۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ ازدواجی تعلقات میں شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو عزت اور محبت دے، اور اس کا معاشی اور جذباتی سہارا بنے۔
فیملی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات کو واضح کیا کہ شوہر کا طیبہ کے ساتھ رویہ اسلام کے ازدواجی اصولوں کے منافی تھا۔ اسلامی احکامات کے مطابق، شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کی کفالت کرے اور اسے اپنی زندگی میں احترام اور محبت دے۔ عدالت نے شریعت کے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے، اور اس کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ عدالت نے طیبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور شادی کو ظلم کی بنیاد پر تحلیل کیا۔
Appellate Court’s Decision
However, the husband challenged this decision in the appellate court, and the appellate court reversed the initial court’s decision and converted it into a khula. Along with this, Tayiba was ordered to return the dowry amount, which was a controversial decision by the appellate court. The appellate court argued that Tayiba’s allegations were exaggerated and that common marital disputes happen in every household.
Supreme Court’s Final Decision
Ultimately, Tayiba approached the Supreme Court, where the court closely reviewed the matter. The court found that the appellate court ignored the evidence and did not act reasonably in its decision. The Supreme Court stated that the request for the restoration of conjugal rights must be based on sincerity and not used as a tactic to avoid paying dowry and maintenance. The Supreme Court accepted the appeal, annulled the appellate court’s decision, and reinstated the initial decision of the family court. The court considered cruelty as a valid ground and did justice to Tayiba.
اپیلٹ کورٹ کا فیصلہ
تاہم، اس کے بعد شوہر نے اپیلٹ کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا، اور اپیلٹ کورٹ نے ابتدائی عدالت کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے اسے خلع میں تبدیل کر دیا۔ اس کے ساتھ طیبہ کو مہر کی رقم بھی واپس کرنے کا حکم دیا گیا، جو کہ اپیلٹ کورٹ کا ایک متنازع فیصلہ تھا۔ اپیلٹ کورٹ نے یہ دلیل دی کہ طیبہ کے الزامات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور عام ازدواجی جھگڑے ہیں جو ہر گھر میں ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ
بالآخر، طیبہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں عدالت نے اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ عدالت نے محسوس کیا کہ اپیلٹ کورٹ نے شواہد کو نظر انداز کیا اور فیصلے میں معقولیت سے کام نہیں لیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ازدواجی حقوق کی بحالی کی درخواست کا مقصد خلوص نیت پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ مہر اور نان و نفقہ کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے اپیل کو منظور کرتے ہوئے اپیلٹ کورٹ کا فیصلہ منسوخ کر دیا اور فیملی کورٹ کا ابتدائی فیصلہ بحال کر دیا۔ عدالت نے ظلم کو ایک جائز بنیاد قرار دیا اور طیبہ کے ساتھ انصاف کیا۔
Conclusion and Lesson
This decision gives us an important lesson that one should not be afraid to seek legal recourse for their rights. Tayiba’s case highlights the necessity for women to speak up for their rights and seek justice through legal means. Courts make decisions in light of Sharia and the law, and women should not remain in relationships that are detrimental to their dignity and life.
Message to Inspire Citizens This blog encourages citizens to pursue their rights through the court system. While minor disputes occur in marital relationships, there is no reason to endure cruelty and unfair treatment. According to Islamic teachings, marriage is a sacred bond based on love, trust, and respect. If these fundamental principles are not present, it is entirely justified to take legal action.
نتیجہ اور سبق
یہ فیصلہ ہمیں ایک اہم سبق دیتا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے قانونی چارہ جوئی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ طیبہ کا کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور قانونی طریقے سے انصاف کی طلب کریں۔ عدالتیں شریعت اور قانون کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں اور خواتین کو ایسے رشتوں میں نہیں رہنا چاہیے جو ان کی عزت نفس اور زندگی کے لیے نقصان دہ ہوں۔
شہریوں کو تحریک دینے کا پیغام
یہ بلاگ اس فیصلے کے ذریعے شہریوں کے دل میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے عدالت جانے کی حوصلہ افزائی پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ ازدواجی تعلقات میں معمولی جھگڑے ہوتے ہیں، لیکن ظلم اور غیر منصفانہ سلوک کو برداشت کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، شادی ایک مقدس بندھن ہے جو محبت، اعتماد، اور احترام پر مبنی ہونا چاہیے۔ اگر یہ بنیادی اصول نہیں ہیں تو قانونی راستہ اپنانا بالکل جائز ہے۔