The Case of the Inherited Gift: A Story of Protecting Your Rights
Inheritance cases, especially those involving hiba (gift), have always been complex and sensitive in nature. People try to distribute their family property in various ways, but sometimes this distribution gives rise to legal issues and creates doubts about rights. In such cases, it becomes necessary to seek the court’s intervention so that justice can be ensured. In this blog, we will analyze a case that involves the legal status of the hiba, the transfer of property, and allegations of fraud. This story is presented in plain language so that every citizen not only understands the depth of this case but is also encouraged to stand up for their rights.
وراثتی ہبہ کا مقدمہ: اپنے حقوق کے تحفظ کی کہانی
وراثتی مقدمات، خاص طور پر ہبہ (گفٹ) کے معاملات، ہمیشہ سے پیچیدہ اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے خاندان کی جائیداد کو مختلف طریقوں سے تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ تقسیم قانونی مسائل کو جنم دیتی ہے، اور حقوق کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ اس بلاگ میں ہم ایک ایسے ہی مقدمے کا تجزیہ کریں گے جس میں ہبہ کی قانونی حیثیت، جائیداد کی منتقلی اور دھوکہ دہی کے الزامات شامل ہیں۔ اس کہانی کو عام فہم زبان میں پیش کیا جائے گا تاکہ ہر شہری نہ صرف اس مقدمے کی گہرائی کو سمجھے بلکہ اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونے کی ترغیب پائے۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2023SCMR2012 | (گفٹ،ہبہ، ہدیہ) Gift , Hiba, Hadya | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | جمال خان مندوخیل اور محمد علی مظہر | ||||
درخواست گزاران | |||||
محمد ریاض | بنام | حیات محمد اور دیگر | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | جمال خان مندوخیل |

Background of the Case
This case was filed by the legal heirs of Hayat Muhammad, in which they requested the cancellation of a property hiba (gift). The case was filed in 2007, and the argument was that the hiba executed in 2001 (Transfer No. 525) was not legal on the grounds of fraud and the non-transfer of possession. The Trial Court ruled in favor of the petitioners, and the Appellate Court upheld this decision as well. However, when the respondent, Muhammad Riaz, filed a civil revision in the Lahore High Court, the High Court annulled the decisions of both lower courts and dismissed the case. After this, the petitioners filed an appeal in the Supreme Court, which subsequently issued its decision.
مقدمے کا پس منظر
یہ مقدمہ حیات محمد کے قانونی ورثاء کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے ایک جائیداد کے ہبہ (گفٹ) کو منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی۔ مقدمہ 2007 میں دائر کیا گیا تھا، اور اس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2001 میں کی گئی ہبہ (انتقال نمبر 525) دھوکہ دہی اور جائیداد کے قبضے کی منتقلی نہ ہونے کی بنیاد پر قانونی نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ نے اس مقدمے میں درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا، اور اپیل کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ تاہم، جب جواب دہندہ محمد ریاض نے لاہور ہائی کورٹ میں دیوانی نظرثانی دائر کی تو ہائی کورٹ نے دونوں عدالتوں کے فیصلے منسوخ کرتے ہوئے مقدمہ خارج کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد، درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس پر یہ فیصلہ جاری ہوا۔
Arguments of the Lawyers
Arguments of the Petitioners’ Lawyers
The petitioners’ lawyers argued that Hayat Muhammad had indeed executed the hiba of his property, but the possession of the property had never been transferred to the respondent. They maintained that for a hiba, it is necessary that the property’s possession be transferred to the recipient (respondent), and since this process was not completed, the hiba was not valid. The lawyer also claimed that, in the last years of his life, Hayat Muhammad declared the hiba to have been executed based on fraud, and he had accordingly filed for its cancellation.
Arguments of the Respondent’s Lawyers
On the other hand, the respondent’s lawyers contended that Hayat Muhammad not only recognized the hiba during his lifetime but also confirmed it before the court. They referenced Hayat Muhammad’s statement in the Trial Court, where he admitted that he had transferred the possession of the property to the respondent. Furthermore, the lawyer pointed out that after the transfer, Hayat Muhammad never challenged the process, and following his death, his legal heirs had no right to interfere in this matter.
وکلاء کے دلائل
درخواست گزاروں کے وکیل کے دلائل
درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حیات محمد نے اپنی جائیداد کا ہبہ تو کیا تھا، لیکن جائیداد کا قبضہ کبھی جواب دہندہ کو منتقل نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہبہ کے لیے ضروری ہے کہ جائیداد کا قبضہ وصول کنندہ (جواب دہندہ) کو دیا جائے، اور چونکہ یہاں یہ عمل مکمل نہیں ہوا، اس لیے ہبہ درست نہیں تھا۔ وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حیات محمد نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس ہبہ کو دھوکہ دہی پر مبنی قرار دیا تھا اور اس بنیاد پر اس کی منسوخی کی درخواست کی تھی۔
جواب دہندہ کے وکیل کے دلائل
دوسری جانب، جواب دہندہ کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حیات محمد نے اپنی زندگی میں ہبہ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے لیے عدالت کے سامنے بیان بھی دیا تھا۔ انہوں نے حیات محمد کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے قبول کیا تھا کہ انہوں نے جائیداد کا قبضہ جواب دہندہ کو منتقل کر دیا تھا۔ وکیل نے مزید کہا کہ حیات محمد نے جائیداد کی منتقلی کے بعد کبھی اس عمل کو چیلنج نہیں کیا، اور ان کی وفات کے بعد ان کے قانونی ورثاء کو اس معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں تھا۔
Legal Points and the Significance of the Decision
Two main legal points emerged in this case:
- Conditions for a Valid Hiba: Under Muhammadan Law, there are three fundamental conditions for a valid hiba:
- The offer by the donorThe acceptance by the recipientThe transfer of possession of the property to the recipient
- Allegation of Fraud: The petitioners claimed that the hiba was obtained by deceiving Hayat Muhammad, but both the Trial Court and the Supreme Court rejected this claim. Hayat Muhammad himself acknowledged the hiba in his statement, and no clear evidence of fraud was presented. Therefore, the fraud allegation failed.
قانونی نکات اور فیصلے کی اہمیت
اس مقدمے میں دو اہم قانونی نکات سامنے آئے
ہبہ کی منسوخی کی شرائط**: مسلمان قانون کے تحت ایک درست ہبہ کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں
– ہبہ دینے والے کی جانب سے پیشکش
– وصول کنندہ کی جانب سے قبولیت
– جائیداد کا قبضہ وصول کنندہ کو منتقل کرنا
حیات محمد نے اپنی زندگی میں جواب دہندہ کے حق میں جائیداد کا ہبہ کیا تھا، اور ریونیو ریکارڈ میں اس انتقال کو درج کرایا تھا۔ چونکہ انہوں نے جائیداد کا قبضہ بھی منتقل کر دیا تھا، اس لیے یہ ہبہ قانونی طور پر مکمل ہو چکا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ واضح کیا گیا کہ ہبہ کی منسوخی اس وقت تک ممکن ہے جب تک قبضہ منتقل نہ کیا گیا ہو، اور چونکہ یہاں قبضہ منتقل ہو چکا تھا، اس لیے درخواست گزاروں کا دعویٰ قابل قبول نہیں تھا۔
دھوکہ دہی کا الزام درخواست گزاروں کا دعویٰ تھا کہ حیات محمد کو دھوکہ دے کر یہ ہبہ حاصل کیا گیا، لیکن ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ نے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا۔ حیات محمد نے خود اپنے بیان میں ہبہ کو تسلیم کیا تھا اور دھوکہ دہی کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے دھوکہ دہی کا الزام بھی ناکام رہا۔
Decision: The Legal Validity of the Hiba Upheld
The Supreme Court clarified that once a hiba is complete and the possession of the property has been transferred, it cannot be canceled unless there is a very strong legal reason. The petitioners lacked both evidence of fraud and proof of non-transfer of possession; hence, their claim was dismissed.
فیصلہ: ہبہ کی قانونی حیثیت برقرار
سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں واضح کیا کہ ایک بار ہبہ مکمل ہو جائے اور جائیداد کا قبضہ منتقل ہو جائے، تو اس ہبہ کو منسوخ کرنا ممکن نہیں ہوتا، جب تک کہ کوئی بہت مضبوط قانونی وجہ موجود نہ ہو۔ درخواست گزاروں کے پاس نہ تو دھوکہ دہی کا ثبوت تھا اور نہ ہی جائیداد کے قبضے کی عدم منتقلی کا کوئی ثبوت، اس لیے ان کا دعویٰ خارج کر دیا گیا۔
What Can Be Learned from This Case?
This case is an important example demonstrating that without meeting the legal requirements, seeking justice for one’s rights can be challenging. Since Hayat Muhammad acknowledged the hiba in his lifetime and transferred the possession, his heirs did not have the right to cancel it. The decision underscores the critical importance of transparency and proper evidence in legal matters.
اس مقدمے سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟
یہ مقدمہ ایک اہم مثال ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر اپنے حقوق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا مشکل ہو سکتا ہے۔ حیات محمد نے اپنی زندگی میں ہبہ کو تسلیم کیا اور قبضہ منتقل کیا، اس لیے ان کے ورثاء کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اس ہبہ کو منسوخ کر سکیں۔ اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قانونی معاملات میں شفافیت اور درست شواہد کی اہمیت کتنی زیادہ ہوتی ہے۔
Do You Also Want to Fight for Your Rights?
If you are facing property or inheritance issues, learn from this case that strong evidence and thorough preparation are essential for any legal proceeding. If you encounter any issues regarding fraud or property transfer, seek legal assistance immediately and file your case without delay.
The decision highlights that standing up for your rights requires strict adherence to legal procedures and a solid foundation of evidence. Do not hesitate to advocate for your rights in inheritance matters, provided all legal steps are properly followed.
کیا آپ بھی اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہتے ہیں؟
اگر آپ کو بھی جائیداد یا وراثتی مسائل کا سامنا ہے، تو اس مقدمے سے سبق سیکھیں کہ قانونی کارروائی کے لیے مضبوط ثبوت اور مکمل تیاری ضروری ہوتی ہے۔ اگر آپ کو دھوکہ دہی یا جائیداد کی منتقلی میں کوئی مسئلہ درپیش ہو، تو فوراً قانونی مدد حاصل کریں اور مقدمہ بروقت دائر کریں۔
اس فیصلے کا مقصد ہمیں یہ بتانا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے قانونی تقاضوں اور شواہد کا مکمل خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ وراثتی معاملات میں اپنے حقوق کو محفوظ رکھنے کے لیے قانونی جدوجہد کرنے سے گریز نہ کریں، لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس مضبوط ثبوت ہوں اور قانونی طور پر تمام مراحل کی پیروی کی گئی ہو۔
In Conclusion: Never Back Down in the Pursuit of Justice
This case teaches us that every citizen has the right to benefit from the power of the law, but it is necessary to act at the correct time and in the proper manner. Always be vigilant in protecting your rights, and if you experience fraud or injustice, promptly turn to legal recourse. Learn from this case: with strong evidence, the court will deliver justice. This blog is based on the judicial decision in Hayat Muhammad’s case, and its purpose is to raise awareness among ordinary citizens about their legal rights and to encourage them to persist in their struggle with determination.
آخر میں: انصاف کی جدوجہد میں کبھی پیچھے نہ ہٹیں
یہ مقدمہ ہمیں سکھاتا ہے کہ قانون کی طاقت سے فائدہ اٹھانا ہر شہری کا حق ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ صحیح وقت پر، صحیح طریقے سے قانونی کارروائی کریں۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیشہ چوکنا رہیں، اور اگر آپ کو کوئی دھوکہ دہی یا ناانصافی کا سامنا ہو، تو فوری طور پر قانونی راستہ اختیار کریں۔ اس مقدمے سے سیکھیں کہ جب آپ کے پاس مضبوط شواہد ہوں گے، تو عدالت آپ کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام نہیں ہوگی۔