
وراثت کے حقوق کی جنگ: محمد شریف بمقابلہ مسمتہ نعمت بی بی – عدالتی فیصلے کا جامع تجزیہ
The Battle of Inheritance Rights: Muhammad Sharif vs. Musammat Naemat Bibi – A Detailed Review of the Judicial Decision
Inheritance has always been a complex and sensitive matter, especially when differences arise among family members. In Pakistan’s legal system, there are countless cases where individuals must turn to the courts for their legal inheritance rights. The case of Muhammad Sharif and Musammat Naemat Bibi is one such story in which a judicial battle for inheritance rights was fought for many years.
This blog will review all aspects of this case, including the arguments of both parties’ lawyers, the details of the judicial decision, and the legal points derived from it. The purpose of this writing is to encourage citizens to recognize the importance of inheritance rights and to fight for justice in court.
وراثتی حقوق کی جنگ: محمد شریف بمقابلہ مسماۃ نعمت بی بی – عدالتی فیصلے کا تفصیلی جائزہ
وراثت ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ رہا ہے، خصوصاً جب خاندان کے افراد کے درمیان اختلافات پیدا ہو جائیں۔ پاکستان کے قانونی نظام میں ایسے بے شمار کیسز ہیں جہاں افراد کو اپنی قانونی وراثتی حقوق کے لیے عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ محمد شریف اور مسماۃ نعمت بی بی کا یہ کیس بھی ایک ایسی ہی داستان ہے جس میں وراثت کے حق کے لیے کئی سالوں تک عدالتی جنگ لڑی گئی۔
یہ بلاگ اس کیس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گا، جس میں دونوں فریقین کے وکلاء کے دلائل، عدالتی فیصلے کی تفصیلات، اور اس سے نکلنے والے قانونی نکات شامل ہوں گے۔ اس تحریر کا مقصد عام شہریوں کو وراثتی حقوق کی اہمیت اور عدالت میں انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دینا ہے۔
عدالتی فیصلہ پر اردو بلاگ | |||||
عدالتی فیصلے کا حوالہ نمبر | 2021SCMR1355 | Inheritance وراثت | |||
کس عدالت نے کیس سنا | سپریم کورٹ آف پاکستان | ||||
جن جسٹس صاحبان نے کیس سنا | قاضی فائز عیسیٰ اور یحیی آفریدی | ||||
جوابی درخواست گزاران | درخواست گزاران | ||||
مس نعمت بی بی جواب دہندگان | بنام | محمد شریف درخواست گزار | |||
فیصلہ لکھنے والا جسٹس | قاضی فائز عیسیٰ |

Introduction
This case is one of the significant cases in Pakistan’s high courts, in which Muhammad Sharif claimed that he was a stakeholder in Taj Deen’s property, while Musammat Naemat Bibi, as an heir, claimed the rights of her mother, Majeedan. In this case, both parties presented their arguments, and ultimately the Supreme Court delivered its decision.
The case of Muhammad Sharif and Musammat Naemat Bibi was a complex inheritance dispute in which family relationships, Islamic Sharia, and legal issues were examined in detail. This decision made it clear that seizing inheritance rights is not as easy as some people believe.
تعارف
یہ کیس پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں سے ایک اہم کیس ہے، جس میں محمد شریف نے دعویٰ کیا کہ وہ تاج دین کی جائیداد میں حصہ دار ہے، جبکہ مسماۃ نعمت بی بی نے بطور وارث اپنی والدہ مجیدن کا دعویٰ کیا۔ اس مقدمے میں دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل دیے، اور بالآخر سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ دیا۔
محمد شریف اور مسماۃ نعمت بی بی کا مقدمہ ایک پیچیدہ وراثتی تنازع تھا، جس میں خاندانی تعلقات، اسلامی شریعت، اور قانونی نکات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس فیصلے نے یہ واضح کیا کہ وراثتی حقوق کو چھیننا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔
Background of the Case
This case began when Taj Deen, who was a childless Rajput, passed away. Afterwards, his sister Majeedan asserted her right over his property and obtained an inheritance transfer. However, Muhammad Sharif challenged this claim, stating that he too was a stakeholder in the property because he is the grandson of Tongal, a close relative of Taj Deen.
After this claim, the case proceeded through various courts, where the trial court rejected Musammat Naemat Bibi’s claim, but the appellate court and later the high court annulled that decision. Eventually, the matter reached the Supreme Court, where, after a detailed hearing, the decision was pronounced.
کیس کا پس منظر
اس کیس کا آغاز اس وقت ہوا جب تاج دین، جو کہ ایک بے اولاد راجپوت تھا، وفات پا گیا۔ اس کے بعد، اس کی بہن مجیدن نے اس کی جائیداد پر اپنا حق جتایا اور وراثتی تبدیلی حاصل کی۔ تاہم، محمد شریف نے اس دعوے کو چیلنج کیا اور کہا کہ وہ بھی اس جائیداد میں حصہ دار ہے کیونکہ وہ تاج دین کے ایک قریبی رشتہ دار ٹونگل کا پوتا ہے۔
اس دعوے کے بعد، یہ کیس مختلف عدالتوں میں چلا، جہاں ٹرائل کورٹ نے مسماۃ نعمت بی بی کے دعوے کو مسترد کر دیا، لیکن اپیلٹ کورٹ اور بعد میں ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ بالآخر، معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، جہاں تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔
Arguments of the Parties’ Lawyers
Lawyer for the Appellant (Muhammad Sharif), Mr. Zulfiqar Ali Abbasi
Mr. Zulfiqar Ali Abbasi claimed that the trial court’s decision was completely correct and should have been upheld. He stated that the appellate court did not properly consider the documents that Muhammad Sharif had submitted, which included a fatwa and a genealogy certificate. These documents showed that Muhammad Sharif is a close relative of Taj Deen and, therefore, a stakeholder in his property.
Furthermore, the lawyer said that the appellate court did not correctly understand the evidence that proved Muhammad Sharif’s relationship with Taj Deen. He claimed that both the appellate court and the high court had made mistakes.
Lawyer for the Respondent (Masmata Naemat Bibi), Chaudhry Irfan Saeed
Chaudhry Irfan Saeed supported the decision of the appellate court and stated that it was in accordance with legal principles. He said that Muhammad Sharif failed to prove his claim of being a close relative of Taj Deen. The lawyer further stated that in the genealogy certificate, Muhammad Sharif’s grandfather, Tongal, was shown as Baloch, whereas Taj Deen was a Rajput, and therefore Muhammad Sharif’s claim was not legally valid.
He further stated that the fatwa given in the 1976 decision was not in accordance with Islamic law and did not include any Sharia interpretation; rather, it merely displayed Muhammad Sharif’s lineage.
فریقین کے وکلاء کے دلائل
اپیل کنندہ (محمد شریف) کے وکیل، مسٹر ذوالفقار علی عباسی
مسٹر ذوالفقار علی عباسی نے دعویٰ کیا کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ بالکل درست تھا اور اسے برقرار رکھا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپیلٹ کورٹ نے ان دستاویزات پر مناسب غور نہیں کیا جو محمد شریف نے پیش کی تھیں، جن میں ایک فتویٰ اور نسب نامہ شامل تھے۔ ان دستاویزات میں یہ دکھایا گیا تھا کہ محمد شریف تاج دین کے قریبی رشتہ دار ہیں اور اس لیے وہ اس کی جائیداد میں حصہ دار ہیں۔
مزید برآں، وکیل نے کہا کہ اپیلٹ کورٹ نے ان شواہد کو صحیح طرح سے نہیں سمجھا جو یہ ثابت کرتے تھے کہ محمد شریف کا تعلق تاج دین سے تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اپیلٹ کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں نے غلطی کی ہے۔
مدعا علیہہ (مسماۃ نعمت بی بی) کے وکیل، چوہدری عرفان سعید
چوہدری عرفان سعید نے اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی اور کہا کہ یہ فیصلہ قانونی اصولوں کے مطابق تھا۔ انہوں نے کہا کہ محمد شریف اپنے دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ وہ تاج دین کا قریبی رشتہ دار تھا۔ وکیل نے مزید کہا کہ نسب نامے میں محمد شریف کے دادا، ٹونگل، کو بلوچ دکھایا گیا ہے، جبکہ تاج دین ایک راجپوت تھا، اور اس لیے محمد شریف کا دعویٰ قانونی طور پر درست نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1976 کے فیصلے میں جو فتویٰ دیا گیا تھا، وہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں تھا اور اس میں کوئی شرعی تشریح نہیں کی گئی تھی، بلکہ یہ صرف محمد شریف کا نسب دکھاتا تھا۔
Legal Point
An important legal point in this case was that according to Islamic Sharia, a sister is entitled to share in her childless brother’s property, and if there are no other close relatives, she is also entitled to the remainder of the property.
The Supreme Court emphasized that according to inheritance law, Taj Deen’s sister, Majeedan, was the legal heir, and Muhammad Sharif failed to substantiate his claim. The case also clarified that inheritance rights in Islamic Sharia are very important and can only be challenged through evidence and proofs.
قانونی نکتہ
اس کیس میں ایک اہم قانونی نکتہ یہ تھا کہ اسلامی شریعت کے مطابق، ایک بہن اپنے بے اولاد بھائی کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے اور اگر کوئی اور قریبی رشتہ دار نہیں ہوتا تو وہ باقی ماندہ جائیداد کی بھی حق دار ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ وراثتی قانون کے مطابق، تاج دین کی بہن، مجیدن، قانونی وارث تھی، اور محمد شریف اپنے دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اس کیس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ اسلامی شریعت میں وراثت کے حقوق بہت اہم ہیں اور انہیں صرف شواہد اور ثبوتوں کے ذریعے ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

Judicial Decision
The Supreme Court, while rejecting the appeal, upheld the decision of the appellate court. The court stated that Muhammad Sharif could not prove his right to inherit from Taj Deen and that his genealogy certificate and fatwa were insufficient to strengthen his claim.
The court further stated that the respondent, Musammat Naemat Bibi, was entitled to the inheritance according to both legal principles and Islamic Sharia, and since Muhammad Sharif’s claim was unsubstantiated, he could not be a stakeholder in the property.
عدالت کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے اپیل کو مسترد کرتے ہوئے اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا کہ محمد شریف تاج دین سے وراثت کا حق ثابت نہیں کر سکا اور اس کا نسب نامہ اور فتویٰ اس کے دعوے کو تقویت دینے کے لیے ناکافی تھے۔
عدالت نے مزید کہا کہ مدعا علیہہ، مسماۃ نعمت بی بی، کا حق وراثت قانونی اور اسلامی شریعت کے مطابق تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چونکہ محمد شریف کا دعویٰ غیر مستند تھا، اس لیے وہ جائیداد میں حصہ دار نہیں بن سکتا۔
The Narrative Aspect
This case is a story of the struggle for inheritance rights. Muhammad Sharif made every effort to secure his right to inheritance through his grandfather’s relationship, but he failed. On the other hand, Musammat Naemat Bibi fought a legal battle for her rights and ultimately succeeded.
This story teaches us that legal struggles are not easy, but if your claim is based on the truth, justice will prevail. In this case, Taj Deen’s sister, Majeedan, and her daughter proved their rights, and the court ruled in their favor.
کہانی کا پہلو
یہ کیس ایک کہانی ہے جس میں وراثتی حقوق کے لیے جدوجہد کی گئی۔ محمد شریف نے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی کہ وہ اپنے دادا کے تعلقات کے ذریعے وراثت کا حق حاصل کر سکے، لیکن وہ ناکام رہا۔ دوسری جانب، مسماۃ نعمت بی بی نے اپنے حق کے لیے قانونی جنگ لڑی اور بالآخر کامیاب ہوئی۔
یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قانونی جدوجہد آسان نہیں ہوتی، لیکن اگر آپ کا حق سچائی پر مبنی ہو تو آپ کو ضرور انصاف ملتا ہے۔ اس کیس میں، تاج دین کی بہن، مجیدن، اور اس کی بیٹی نے اپنے حق کو ثابت کیا اور عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔
Conclusion
This case is an important example in Pakistan’s judicial system regarding inheritance rights. This blog clearly shows that challenging inheritance rights is a serious matter and that strong evidence and proofs are required.
Citizens should be aware of their legal rights and should not hesitate to approach the courts if they face injustice. This case has proven that the battle for one’s rights is not easy, but if you possess legal and Sharia rights, justice will indeed be served.
This writing conveys the message to every citizen to take inheritance rights seriously and, if necessary, engage in legal battles so that you may obtain your rightful share.
اختتامیہ
یہ کیس پاکستان کے عدالتی نظام میں وراثتی حقوق کے حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔ یہ بلاگ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وراثتی حقوق کو چیلنج کرنا ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس کے لیے مضبوط شواہد اور ثبوت درکار ہوتے ہیں۔
شہریوں کو اپنے قانونی حقوق سے آگاہ ہونا چاہیے اور اگر ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو انہیں عدالت کا رخ کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اس کیس نے یہ ثابت کیا کہ حق کی جنگ آسان نہیں ہوتی، لیکن اگر آپ کے پاس قانونی اور شرعی حق ہو تو آپ کو انصاف ضرور ملتا ہے۔
یہ تحریر ہر شہری کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وراثتی حقوق کو سنجیدگی سے لیں اور اگر ضرورت ہو تو قانونی جدوجہد کریں تاکہ آپ کو آپ کا جائز حق مل سکے۔